تحریر: سید محمد.ر.موسوی
حوزہ نیوز ایجنسی |حضرت امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ) کی غیبت کی اسرار الہی میں سے ایک راز ہے جس کی حقیقت کو درک نہیں کیا جاسکتا ہے ، گذشتہ امتوں اور اولیائے الہی کی زندگی میں وقتی غیبت کے چند نمونے نظر آتے ہیں مثلا حضرت موسی(علیہ السلام) چالیس سال تک اپنی امت سے پوشیدہ رہے اور آپ نے وہ پورا وقت میقات میں گزارا[1] ۔ اسی طرح حضرت عیسی(علیہ السلام) بھی ایک مدت تک اپنی قوم سے پوشیدہ رہے اور آپ کے دشمن آپ کو قتل نہ کرسکے [2]۔اورحضرت یونس (علیہ السلام) بھی ایک مدت تک اپنی قوم سے پوشیدہ رہے [3]۔ لہذا معلوم ہوا کہ امام زمانہ (علیہ السلام) کی غیبت کوئی جدید موضوع نہیں ہے اور یہ غیبت جس قدر بھی طولانی ہوجائے لیکن امام مہدی (علیہ السلام) کے اصل وجود کے انکار کا سبب نہیں بن سکتی کیونکہ یہ تمام چیزیں متواتر حدیثوں اور روایات سے ثابت ہیں لیکن اگر انسان اس کا تجربہ یا مشاہدہ نہیں کرسکتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا انکار کردیا جائے یا ان کو قبول کرنے میں شک کیا جائے کیونکہ جو باتیں متواتر صورت میں نقل ہوں وہ اطمینا ن بخش ہوتی ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو بہت سے مسلم الثبوت مطالب اور ضروریات دین و دنیا کو انکاراور شک و تردید کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
عوامل غیبت:
غیبت حضرت امام عصر (عج) کے سلسلے میں روایات کی روشنی میں مختلف عوامل کو بیان کیا گیا ہے جن میں سے بعض کو پیش کیا جارہا ہے:
۱۔ مشیت الہی:
حضرت امام عصر(عج) کی غیبت کا اصلی ہدف کیا ہے؟ اس سلسلے میں دقیق طور پر کوئی ایک عامل کوبیان نہیں کیاگیا ہے بلکہ اسے ایک راز الہی کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے لہذا کہا جاسکتا ہے کہ مشیت الہی کے مطابق امام عصر کو غیبت میں رکھا گیا ہے چنانچہ عبداللہ بن فضل ہاشمی نامی روای بیان کرتے ہیں کہ:
" میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام )سے سنا کہ آپؑ نے فرمایا: "صاحب الامر کے لئے یقینا ایک غیبت ہوگی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس دوران ہر اہل باطل شک و شبہ میں مبتلا ہوجائیں گے۔ میں نے عرض کی، میری جان آپ پر قربان! ایسا کیوں ہے؟ فرمایا وہی حکمت ہے جو ان سے پہلے خدا کی حجتوں کے غائب ہونے کی تھی۔ یقینا غیبت کی حکمت اسی وقت ظاہر ہوگی جب ان کا ظہور ہو جائےگا، بالکل اسی طرح جیسے حضرت خضر (علیہ السلام) کے امور یعنی کشتی میں سوراخ کرنے، لڑکے کو جان سے مار دینے اور دیوار بنانے کا راز، حضرت موسی (علیہ السلام )کو اس وقت معلوم ہوا جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے۔ اے فرزندِ فضل! یہ غیبت خدا کے امور میں سے ایک امر ہے، اسرار الٰہی میں سے ایک سرّ ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم حکیم ہے اور ہم نے یہ گواہی دی ہے کہ اس کا ہرقول و فعل حکمت کے مطابق ہے چاہے اس کا راز ہم پرپوشیدہ ہی کیوں نہ ہو"[4]۔
۲۔ قتل و شہادت سے حفاظت/ حاکمیت مطلق توحید کے لئے زمینہ سازی
قرآن اور سینکڑوں احادیث میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ خداوندمتعال کا ارادہ ہے کہ دنیا پر توحید کی مکمل اور مطلق حاکمیت ہو۔ اور اس مسٔلہ کے لئے رہبروں اور آسمانی کتابوں کا طویل سلسلہ جاری و ساری رہا۔ لیکن کسی بھی زمانہ میں مطلق طور پر ہرجگہ توحید کی حاکمیت و حکومت قائم نہیں ہوئی ۔ اس کی مختلف وجوہات رہیں ان میں سے ایک یہ کہ بشری فکریں کامل نہیں ہوئیں۔ الہی نمائندوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ہر ایک نے اپنی ذمہ داری کے لئے سے حاکمیت مطلق توحید کے لئے زمینہ فراہم کیا لیکن یہ کام مکمل نہ ہوسکا اور اللہ کے آخری نمائندہ کا وقت آن پہونچا ۔اب خداوند عالم نے پوری دنیا میں ان کے ذریعہ عدالت اور توحید کو پھیلانے کا ارادہ کر رکھا ہے لیکن یہ بہت بڑی آرزو ایک طویل عرصہ کے بعد وجود میں آئے گی اس لئے کہ عقل بشری اپنے کمال تک پہنچی تھی اور اس مرحلہ کے لئے فکریں آمادہ نہیں ہوئیں ۔ فطری سی بات ہے کہ اگر آخری امام (عج) بھی لوگوں کے درمیان ہمیشہ ظاہر رہتے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کرتے تو مذکورہ ہدف کے لئے مسائل فراہم ہونے سے پہلےان کا بھی وہی حال ہوتا جو ان کے والد اور اجداد کا ہوا تھا یعنی شہادت ۔اور اس بزرگ ہدف اور آرزو کے پورا ہونے سے پہلے انہیں قتل کردیا جاتا ۔ اسی لئے خداوندمتعال نے آپ کا پردۂ غیبت میں رکھا ہے اور دنیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اب آپ اسی وقت ظہور فرمائیں گے جب دنیا بہت ہی شوق و اشتیاق کے ساتھ اس عادل اور آزادی عطاکرنے والے امام کا استقبال کرے گی ۔
مذکورہ عامل اہل بیتؑ کی روایات سے مروی متعدد احادیث میں بیان ہوا ہے چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام محمد باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:
" حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ) کے ظہور سے پہلے ان کی غیبت ہوگی ۔ راوی نے پوچھا : کس لئے ؟ فرمایا: قتل ہونے کے ڈر سے[5]۔
معلوم ہوا کہ غیبت کا ایک اہم عامل امام عصر(عجل اللہ تعالیٰ) کو قتل و شہادت سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ حاکمیت مطلق توحید کے لئے دنیا کامل طور پر آمادہ ہوسکے اور ظہور امام عصر (عج) کا لوگوں کے دلوں میں اشتیاق پیدا ہو۔ اس لئے کہ ایک عالمگیر انقلاب کے لیے صرف ایک لائق اور شائستہ رہبر کا وجود ہی کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت ہے کہ عوام بھی آمادہ ہوں لیکن افسوس ہے کہ دنیا ابھی اس طرح کی حکومت برداشت کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتی دنیا میں آمادگی پیدا ہوتے ہی امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور اور قیام یقینی ہے۔
۳۔ لوگوں کا امتحان اور آزمائش
امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ) کی غیبت کے عوامل میں متعدد روایات بیان کرتی ہیں کہ غیبت کو اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ اس دوران لوگوں کا امتحان لیا جاسکے اور ان کی آزمائش کرکے انہیں کمال مطلوب کی جانب گامزن کیا جا سکے اور ان کے شعور و آگاہی کو بڑھایا جاسکے ۔ اسی طرح اس آزمائش کے ذریعہ حق والوں اور باطل پرستوں، ایمانداروں اور کافرین و مشرکین و منافقین کو کامل طور پر جدا کیا جاسکے تاکہ اعتقادات میں ان کی ثابت قدمی و استواری یا تزلزل عیان و معلوم ہوسکے[6]۔
واضح رہے کہ یہ امتحان اور آزمائش خود مسلمین و مومنین اور شیعوں کے لئے بھی ہے تاکہ سب کا ظاہر و باطن معلوم ہوسکے اور حقیقی ، غیر حقیقی سے جدا ہوسکے۔ چنانچہ نقل ہوا ہے کہ
"حضرت امام صادق(علیہ السلام) کے اصحاب آخری امام (عج) کے ظہور اور حکومت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ اس پر امام صادق (علیہ السلام) نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا، "یہ امر(ظہور)تمہارے سامنے نہیں آئے گا مگر ناامیدی کے بعد۔ خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جبتک تم (مومن اور منافق) ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔ خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک اہل شقاوت و اہل سعادت ایک دوسرے سےجدا نہ ہو جائیں"[7]۔
غیبت حضرت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت کے سلسلے میں مذکورہ عوامل کے علاوہ کچھ اور بھی عوامل و اسباب بیان ہوئے ہیں، مگر وہ یا تو انہیں اصلی عوامل کے ذیل میں قرار پاتے ہیں یا امام ؑ کی غیبت کے آثار اور نتائج کے ذیل میں ذکر ہوتے ہیں۔
خداوندمتعال سے دعا ہے کہ امام عصر، حجت دوراں کے ظہور پرنور میں تعجیل فرماکر دنیا کو امن و امان سے آراستہ کردے۔
[1] سورہ اعراف، آیت142۔
[2] سورہ نساء ، آیت158۔
[3] سورہ صافات، آیت140۔
[4] شیخ صدوق، علل الشرائع ،ص244۔ باب،179۔
[5] اس سلسلے کی روایات کے لئے رجوع کریں: شیخ صدوق، کمال الدین، ص481، باب44، حدیث8 وغیرہ۔
[6] اس سلسلے کی روایات کے لئے رجوع کریں: کتاب منتخب الاثر، آیۃ اللہ صافی گلپایگانی، فصل 1، باب8ح4 اور کتاب سیمای عقاید شیعہ، ص258 وغیرہ۔
[7] شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، ص204۔ شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص15، ح31۔